بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے بلوچستان میں لگائے جانے والے کُتب میلے میں قانونی اداروں کی غیر منطقی حیلوں اور بہانوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں طلباء پر کریک ڈاؤن کرنا اِس فاشسٹ جمہوریت کو بے نقاب کر رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی اس عمل پہ جتنی مزمت کی جائے کم ہے۔



 بلوچستان کتاب کاروان  کے نام سے بلوچستان میں لگائے جانے والے کُتب میلے میں قانونی اداروں کی غیر منطقی حیلوں اور بہانوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں طلباء پر کریک ڈاؤن کرنا اِس فاشسٹ جمہوریت کو بے نقاب کر رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی اس عمل پہ جتنی مزمت کی جائے کم ہے۔

بلوچ سٹوڈنٹس کونسل پنجاب

بلوچ سٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے کہا کہ آئے روز بلوچستان میں بُک اسٹالوں پر پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے طلباء کو تنگ اور ہراساں کرنا معمول بن گیا ہے۔حکومت  اپنی جارحانہ پیش قدمیوں کی بدولت بلوچستان میں تعلیمی عمل پَر رکاوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔حکومت کئی بار بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پولیس اور دیگرحساس اداروں کی مدد سے بُک اسٹالز پَر دھاوا بول چُکی ہے مزید برآں طلبا پَر ایف آئی آر بھی کیا گیا ہے۔ ان نوجوانوں کا جُرم صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے میں کُتب بینی کو فروغ دینا چاہتے ہیں لیکن حکومت پروگریسیو لٹریچر کو اشتہال انگیز قرار دے کر طلباء کو گرفتار کر رہی ہے۔ اِس بوکھلاہٹ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی  سازش ہے جس سے بلوچ قوم کو شعوری اور تعلیمی  نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔گزشتہ روز گوادر میں  بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے لگائے گئے بک سٹال پَر حملہ کرکے پولیس نے طلباء کو حراست میں لیا اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کے زور پہ تھانے میں بند کروا دِیا۔ 

مزید برآں ترجمان نے کہا کہ پولیس کی طرف سے طاقت کا استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ  بلوچ نوجوان پڑھ لکھ کر اپنے شعوری صفر کی طرف گامزن ہو۔ اس کے علاوہ حب، ڈیرہ مُراد جمالی، سبی،جعفرآباد،بارکھان،تونسہ اور جھل مگسی میں بھی طلباء   کو قانونی کارروائی کے پیش نظر کیا گیا۔ بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کیلئے ریاست کی طرف سے تمام تر توانائیاں بروئے کار لا کر طلباء کیلئے تعلیم کی ہر ممکن راستے کو بند کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔

ترجمان نے مزید کہا کہ تعلیم کو زنجیروں میں جھکڑنے  کی یہ سازش ریاست کی نوآبادیاتی زہنیت کی عکاسی کرتی ہیں  جس کی پرزور مزمت کرتے ہیں اور تعلیم دشمن ایسے تمام حربوں کی مخالفت کرتے ہیں، مزید برآں تمام علم دوست اداروں اور صحافیوں کے گوشگزار کرتے ہیں کہ ایسے علم دشمن کاروائیوں کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ بلوچ طلباء کیلئے علم کے دروازے کو بند ہونے سے بچایا جاسکے۔

Previous Post Next Post