بلوچستان میں سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں پر قدغن لگانا بلوچ قوم کی زہنی ترقی کی راہ پر ضرب لگانے کی مترادف ہے جسکی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔


بلوچستان میں سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں پر قدغن لگانا بلوچ قوم کی زہنی ترقی کی راہ پر ضرب لگانے کی مترادف ہے جسکی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔ 

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، پنجاب

بلوچ اسٹوڈنس کونسل پنجاب کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں طلباء و طالبات کو ادبی پروگرام اور کتب بینی سے حکام بالاء کی جانب سے روکنا بلوچستان میں کالونییل سوچ پر مبنی ریاستی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ انسانی شعور کو پروان چڑھانے میں اہم کردار کتابوں کا ہوتا ہے جو انسانی زہنی اور روحانی ترقی کا ضامن ہیں۔ انسانی سماج کی ارتقاء کو برقرار رکھنے کے لئے کتابیں اتنی اہم ہیں جتنا انسانی جسم کو روان دوان رکھنے کے لئے روح کی اہمیت ہے۔ علم اور ادب وہ بنیادی شئے ہیں جس نے آج انسانی سماج کی ترقی کو اتنا دوام بخشا کہ آج انسان زمین سے لاکھوں میل دور سیاروں کو قابلِ رہن سہن بنانے کی تگ و دو میں ہے۔ کتب بینی پر قدغن لگانا لائبریریوں پر قبضہ کرنا اور علم و شعور سے دور رکھنے کی ہر ہنر آزمانا اُس قوم کے روح و زہن کو مقید رکھنے کی برابر ہے اور آج ایسے علم و کتاب دشمن حربے بلوچستان میں بڑے شوق سے آزمائے جا رہے ہیں۔ ہم بارہا کہتے آ رہے ہیں اس ریاست میں بلوچ کے لئے پڑھنا اور آگے بڑھنا تو دور یہان پر کسی شخص کو متوسط زندگی گزارنے کا بھی حق حاصل نہیں اور اس جرم میں سر سے پاؤن تک ریاست کے تمام خواہ تعلیمی ہو یا سیکورٹی ادارے سب برابر کے شریک اور پیش پیش ہیں۔ 

ترجمان نے مزید حالات کو واضع بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں علم اور کتابوں اور دیگر سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر پابندی لگانا خود اس چیز کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ بلوچستان اب صوبے کی حیثیت سے نکل کر اس ریاست کے لئے کالونی بن چکی ہے جہان پر وہی حربے اور ہتکھنڈے آزمائے جا رہے ہیں جو نوآبادیاتی دور میں مقبوضہ اقوام پر آزمائے گئے تھے۔ بلوچستان میں ہر روز مسئلے رونما ہوتے آ رہے ہیں باقی مسائل سمیت طلباء کو تنگ کرنا ان کے لئے دوشواریاں پیدا کرنا ادبی تعلیمی اور ثقافتی میلوں پر پابندیاں لگانا سرِ فہرست ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ گزشتہ روز آواران کے علاقے مشکے میں طلباء طالبات کی جانب سے ایک ادبی پروگرام اور کتب میلہ منعقد ہونے جا رہا تھا لیکن انتظامیہ اور گماشتہ طاقتوں پر یہ گران گزارا جس کی وجہ سے پروگرام کو سبوتاژ کیا گیا۔ اسی پالیسی کی ایک کھڑی، گزشتہ روز گورنمنٹ ڈگری کالج قلات میں قلات اسٹوڈنٹس فورم کی جانب سے منعقد کردہ کتب میلے میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئی اور اس کو ناکام بنانے کی کاوشین برتی گئیں لیکن باعزم طلباء نے تمام رکاوٹوں کے باوجود روڈ پر ہی کتابیں سجائے اور بلوچ سماج کو کتابوں سے آشنا کرنے کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے جو قابلِ ستائش عمل ہے۔ ایک طرف قائم مقام ریاست جس پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے انکے لئے تعلیمی اور دیگر مواقع فراہم کرے لیکن جب اس ریاست سے یہ نہ ہوسکا تو باشعور اور کتاب دوست بلوچ نواجوان جب اس طرح کے سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں بجائے انکی مدد کرنے اور انکی کاوشوں کو سراہنے کے یہ ریاست اور اسکے ادارے ان غیور اور علم دوست طلباء کی راہ میں بیرئیر بن کے کھڑے رہتے ہیں۔  ہم بطور طلباء ادارہ ایسی کتاب دشمن اور سماج کو منجمند رکھنے والی پالیسیوں کی مزمت کرتے ہیں اور یہ واضع کرتے ہیں کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کے ساتھ علم دشمنی اور کتاب دشمنی کا رویہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ 

ترجمان نے قلات کے باشعور طلباء کی علم دوستی کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تمام پابندیوں کے علاوہ بھی انکے ہمت اور کتب بینی کے حوصلے قابلِ تحسین ہیں۔ اور ساتھ ہی نام نعاد ایجوکیشنسٹ اور تعلیمی اداروں کے بے لگام سربراہان کا اپنے پیشے سے منفی روئیوں کا مزمت کرتے ہیں۔ دنیا میں ایجوکیشنسٹس علم دوستی اور کتب بینی اور علم کے فروغ سے جانے جاتے ہیں لیکن ستم ظریفی دیکھیں اس ناکام نظام نے ایجکیشنٹس کے نام پہ ہمارے سماج میں تعلیم دشمن قوتوں کو فائز کیا ہے جن کا مشق ہمارے سماج کو منجمند رکھنا ہے۔ قلات کتب میلے کو سبوتاژ کرنے میں سیکورٹی اداروں کے ساتھ اُس کالج کا پرنسپل بھی پیش پیش ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ انکے پیشے سے دھوکہ اور نا اہلیت کا اظہار ہے جس کی وجہ سے ہم ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس طرح کے قدامت پسند اور سماج دشمن شخصیات کو اتنے عظیم عہدوں پر فائز کرکے ہمارے بچوں کے مسقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنا بند کرے اور ساتھ ہی یہ مانگ کرتے ہیں اس واقع میں ملوث تمام قوتوں کو جوابدہ کیا جائے۔ 

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب کے ترجمان نے بیان کے آخر میں بلوچ طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے تعلیم دشمن پروپیگینڈوں کے سامنے ہر گز ہار نہ مانیں اور اپنی تعلیم دوستی کے مشن کو مزید طول دیں تاکہ بلوچستان کے گوشہ گوشہ سے کتاب کی مہک آئے اور علم کی دیّا ٹمٹماتی دکھائی دے۔ قلات اور مشکے کے طلباء کے سرگرمیوں کو روکنے کی نہ صرف مزمت کرتے ہیں بلکہ یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم تمام علم دوست اور سماجی فلاح و بہبود اور تعلیم کی ترقی کے لئے کام کرنے والے ساتھیوں کی جد وجھد میں شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ 

کتاب دوستی زندگ بات

Previous Post Next Post